تقدیر اور جزا و سزا
تحریر: مسز عبنرین میغیث سروری قادری ایم۔اے۔ابلاغیات
تقدیر اور جزا و سزا کا معاملہ انسانوں کیلئے ہمیشہ سے پر اسرار اور الجھاؤ کا باعث رہا ہے۔ انسان ہمیشہ اس تذبذب کا شکار رہتا ہے کہ اگر سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہے تو پھر انسان کے اعمال کی حقیقت کیا ہے۔ اگر اللہ کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا تو پھر انسان اپنے اچھے بُرے اعمال کا ذمہ دار اور جزا و سزا کا حقدار کیونکر ہوا۔ اس سوال کا بہترین جواب اسی بہترین ہستی نے دیا جو آشنائے اسرارِ الٰہی سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقیقی علمِ الٰہی کے وارث ہے یعنی نواسا ء رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ ۔حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے سوال پوچھا کہ ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرزند ارجمند ! تقدیر کے بارے میں ہماری حیرت اور استطاعت کے بارے میں ہمارے اختلاف میں آپ کی کیا رائے ہے‘‘؟ تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ ’’اس مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ ہر نیک اور بُرے کام کی تقدیر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے وہ کافر ہے اور جس نے اپنے گناہوں کو اللہ تعالیٰ کے ذمے لگایا وہ فاجر و گمراہ ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت جبراً کی جاتی ہے اورنہ ہی اس کی نافرمانی کسی مجبوری کے تحت کی جاتی ہے اورنہ ہی وہ اپنی مملکت میں اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے۔ تاہم وہ ان تمام چیزوں کامالک ہے جن کا اس نے اپنے بندوں کو (وقتی طور پر اس دنیا میں) مالک بنایا ہے۔ لہٰذا اگر وہ اطاعت کا ارادہ کریں تو اللہ اُن کو روکتا یا فرمانبرداری کرنے سے ہٹا تا نہیں اور اگر وہ نافرمانی کا ارتکاب کریں اور پھر وہ ان پر احسان فرمانا چاہے تو ان کے اور معصیت کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اُس نے ان کو گناہ پر نہ تو مجبور کیا ہے اور نہ ہی نافرمانی کا ارتکاب اُن پر جبراً لازم کیا ہے۔ اُس نے تو ان کو یہ سب بتا کر اپنی حجت قائم کردی ہے کہ اُنہیں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قوت بخش دی گئی ہے اور ان کے لیے اس امر (نیکی) کے اختیار کرنے کی ، جس کی اللہ نے انہیں دعوت دی ہے، اور اس کام کے ترک کرنے کی جس سے اس نے انہیں منع کیا ہے آسانی پیدا کردی تھی اور اللہ تعالیٰ کی حجت ہی غالب ہے‘‘۔(کشف المحجوب)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی باطنی صورت کو خیر اور شر کا مجموعہ بنایا ہے۔ خیر انسان کی ذات میں صفاتِ الٰہیہ کی صورت میں موجود ہے جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا کہ وَفِیْ ٓاَنْفُسِکُمْ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ o (اَلذّٰریت ۔21) ترجمہ:’’اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔‘‘ اور شر شیطانی صفات کی صورت میں موجود ہے کیونکہ شیطان کو انسان کے خون میں دوڑنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے خود دی ۔ شیطان تو انسانوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اللہ نے اسے اجازت اس لیے دی کہ اللہ انسان کی آزمائش کرنا چاہتا تھا۔ خیراور شر دونوں صفات اس میں رکھ کر اللہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ انسان خیر کی صفات یعنی صفاتِ الٰہیہ اپنا کر اللہ کو راضی کرتا ہے یا شیطانی صفات اپنا کر شیطان کو۔ یہ دنیا اللہ نے انسان کی آزمائش کے لیے بنائی تاکہ اسے جزا اور سزا، جنت و دوزخ سے نوازا جاسکے۔ اس آزماش گاہ میں تقدیر کی حیثیت سوال نامے کی سی ہے اور کسی بھی تقدیر کے سامنے آنے پر ہمارا ردِ عمل اس سوال کے لیے جواب ہے۔ اگر اللہ نے ہماری تقدیر میں بھوک یا رزق کی تنگی کا سوال لکھ دیا اور ہم نے اس تقدیر پر گلہ شکوہ اور اعتراض کی روش اپنالی اور جھوٹ، دھوکے یا چوری کے ذریعے پیسہ کمانے کی کوشش کی تو جواب غلط۔ لیکن اگر صبر ، شکر و قناعت اپنائی اور محنت اور ایمانداری سے رزق کمانے کی کوشش کی تو جواب صحیح۔ اللہ کی رضا بھی پائی اور اسکی مدد بھی۔ چنانچہ تقدیر کی صورت میں سوال اللہ نے لکھے لیکن اپنے اچھے بُرے اعمال کے ذریعے جواب ہم نے دئیے اور جزا و سزا ہمارے جوابوں کے مطابق ہمیں ملے گی۔
جب بھی تقدیر کی صورت میں کوئی سوال ہمارے سامنے آتا ہے تو جواب کے لیے رہنمائی ہمیں ہمارے اندر سے بھی ملتی ہے اور باہر دوسرے لوگوں سے بھی ملتی ہے، ہمارے اندر موجود خیر یعنی اللہ کی ذات مسلسل ہمیں اس نیکی کی طرف مائل کرتی ہے جس کی توقع اللہ اپنے بندے سے کرتا ہے ۔اللہ کی ذات، ہمارے ضمیر کی آواز بن کر ہمیں صبر کرنے ، گناہ سے رُک جانے، سچ بولنے، دھوکہ نہ دینے، لالچ سے بچنے، غصہ کو قابو میں رکھننے ، غرض ہر اچھائی کی ترغیب دیتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہی اندر موجود شیطان بھی اپنا کام شروع کر دیتا ہے ہمیں ہر گناہ کو آسان اور لذیز بنا کر دکھاتا ہے اورہمیں ان کاموں پر اکساتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں ۔ یوں تقدیر کے سوال کے دونوں جواب ہمارے سامنے ہوتے ہیں اب یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم کونسا جواب چنتے ہیں ۔ اللہ کی آواز سن کر نیکی یا اللہ کی طرف جاتے ہیں یا شیطان کی بات مان کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ تقدیر کے جتنے سوالوں کے جواب میں ہم اللہ کی بات سنیں گے اتنا ہی اللہ کی طرف قدم بڑھائیں گے، اس کے قریب ہونگے اور اس کا قرب خود ہی حقیقی جنت اور جز ا کی بہترین صورت ہے۔ اور اگر ہم شیطان کی بات مانتے جائیں گے تو اس کی راہ پر لگ کر اللہ سے دور ہوتے جائیں گے اور اللہ سے دوری ہی جہنم اور سزا ہے۔ جب شیطان کی راہ پر لگ کر اللہ سے دور ہوجائیں گے تو ہر تقدیر پر ہمارے اندر سے آنے والی اللہ کی آواز بھی ہمیں سنائی نہ دے گی اور ایک وقت آئے گا کہ ہم صرف شیطان کی ہی ہر بات سنیں اور مانیں گے لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں اللہ نے مجبور نہیں کیا۔ اس نے تو ہر موقع پر ہمیں خیر اور بھلائی کی طرف پکارا لیکن ہم نے اس کی بات نہ سن کر خود شیطان کی انگلی پکڑ لی اور اسے اپنا رہنما بنا لیا ۔ چنانچہ اپنی جزا و سزا کی پوری پوری ذمہ داری صرف اور صرف ہم پر ہے۔ہاں تقدیر بھی اللہ کی طرف سے ہے اور نیکی اور بھلائی کی توفیق بھی۔ جس نے اس نیکی اور بھلائی کی توفیق کو اچھی طرح قبول کیا اور اس کو اچھے طریقے سے استعمال کرکے نیک عمل کیئے اللہ اسے مزید نیکی اور بھلائی کی توفیق دیتا رہے گا لیکن جو اس توفیق کو ہر بار ملنے پر ضائع کرتا رہا ، اللہ اسے یہ توفیق دینا بھی بند کر دیتا ہے۔ یعنی اس کے اندر سے اس کی صحیح رہنمائی کرنے والا ضمیر مر جاتا ہے اور شیطان مکمل غالب آجاتا ہے ۔ اگر ہمیشہ اللہ کی ہی اندر سے سنائی دینے والی آواز سنی اور ہر قدم اسی کے مطابق اٹھایا تو اندر کے شیطان کو شکست دی اور یونہی آہستہ آہستہ ایک ایک قدم اللہ کی طرف اٹھاتے شیطانیت سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ چنانچہ انسان کی زندگی کا ہر قدم اہم ہے، ہر تقدیر پروہ اپنے اندر سے اٹھنے والی آواز کو سنے اگر وہ آواز قرآن، سنت ، آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے تو یقیناًوہ اللہ کی آواز ہے اور اگر اسکے خلاف ہے تو شیطان کی۔ اللہ کے کہنے کے مطابق عمل کرے گا تو خود کو جزا اور اللہ کی رضا کا حقدار بنائے گا، شیطان کی سنے گا تو سزا کا حقدار بنے گا ۔ اپنی راہ چننے کا پورا اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ وہ کسی دوسرے کو اپنے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔