معراج
تحریر: فوزیہ فرید سروری قادری۔ لاہور
اے ختمِ رُسل، مکی مدنی، کونین میں تم سا کوئی نہیں
اے نورِ مجسم تیرے سوا محبوب خدا کا کوئی نہیں
یہ شان تمہاری ہے آقاؐ تم عرشِ بریں پر پہنچے
ذیشان نبی ہیں سب لیکن، معراج کا دولہا کوئی نہیں
معراج کے لفظی معنی عروج یا چڑھائی کے ہیں۔ یہ وہ سفر مبارک ہے جوانسان کے جسمانی اور باطنی عروج کی انتہا ہے۔ یہ کمال رسالت اور تجلیات کی وہ روداد ہے جو اس سے پہلے نہ کبھی لکھی گئی اور نہ ہی دوبارہ لکھی جائے گی۔ یہ خالق اور مخلوق کی وہ ملاقات ہے جس میں دونوں طرف شوقِ وصل تھا اور جس میں خالق نے اپنی ہر تجلی کو انسانی آنکھ کی بینائی کے قابل کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر خدا پاک کی تجلی کی تاب نہ لاسکے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی مبارک آنکھوں سے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار کیا۔
معراج کا بیان
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کی سیر کرائی۔ جس کے گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے تاکہ اسے ہم اپنی نشانیاں دکھائیں۔ (الاسرا۔1)
نبوت کے بارھویں سال رجب کی ستائیسویں شب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حطیم کعبہ میں تشریف فرما تھے اور بعض روایات کے مطابق مقام حجر پر استراحت میں تھے کہ خدائے بزرگ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا نزول ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آرام سے جگا کر اللہ بزرگ و برتر کی طلبی کے حکم سے آگاہ کیا گیا۔ امام بخاری بروایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حلق سے ناف تک سینہ چاک کیا گیا اور میرے دل کو نکال کر ایمان سے لبریز سونے کا طشت لا کر اس میں دھویا گیا۔ پھر اندر رکھ کر سینہ بند کر دیا گیا۔ پھر میرے پاس خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی ایک سفید سواری لائی گئی‘‘ (جسے حضرت انسؓ نے بروایت براق کہا)۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید فرمایا ’’مجھے براق پر سوار کر لیا گیا۔‘‘ براق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بجلی کے ہیں۔ برق رفتار کی اصطلاح اسی لفظ پر مبنی ہے اور بجلی روشنی کی ہی شکل ہے اور روشنی کی رفتار سے سفر وقت کو بمطابق نظریہ اضافت روک دیتا ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے براق پر سوار ہونے اور چلنے کے بعد وقت سوار کے لئے رک گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس عظیم سفر کے دو حصے بیان کیے جاتے ہیں۔ اسراء اور معراج۔
اسراء سفر مبارک کا پہلا حصہ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ یروشلم (بیت المقدس) مکہ مکرمہ سے قریباً پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ چودہ سو سال قبل رونما ہونے والے اس سفر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جسمانی طور پر یہ سفر بجلی کی تیزی سے سفر کرنے والے براق پر کیا۔ اسراء کے معنی’’سفرِ لیل‘‘ یعنی رات کے سفر کے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبلہ اوّل پہنچے توانبیا کی جماعت استقبال کے لیے موجود تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امام الانبیا بنے اور آپکی امامت میں جماعت الانبیا نے نماز ادا فرمائی۔
مسجد الاقصیٰ میں امامتِ انبیا کے بعد حضرت جبرائیل ؑ نے بروایت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں دودھ ، شہد اور شرابِ طہور کے پیالے پیش کیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دودھ کا پیالہ منتخب کیا اور جام نوش فرمایا جس پر حضرت جبرائیل ؑ نے کہا ’’آپ نے فطرت کو پسند فرمایا‘‘۔
معراج کا سفر شروع ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آسمانوں کی سیر کو تشریف لے گئے۔ بلحاظِ ترتیب آپ کو ساتوں آسمانوں تک لے جایا گیا ہر آسمان کے دروازے پر حضرت جبرائیل ؑ نے دستک دی اور نگہبان فرشتوں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کون آیا ہے اور حضرت جبرائیلؑ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام مبارک لیا، پوچھا گیا کیا انہیں بلوایا گیا ہے اور ہاں میں جواب پاکر دروازے کھول دئیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خوش آمدید کہا گیا۔ آسمانوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت آدمؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت ادریس ؑ ، حضرت ہارونؑ ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت ابراہیم ؑ سے بالترتیب ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سب کو سلام کیا اور سب نے فرمایا’’ نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو۔‘‘
اپنے آباء اور پیش رو انبیا سے ملاقات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ساتویں آسمان کی انتہا سے آگے مقامِ سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر حضرت جبرائیل ؑ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرمایا ’’اس سے آگے جانا میرے بس میں نہیں، اس سے آگے کا راستہ بحکمِ خدا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جانتے ہیں۔‘‘
مقامِ منتہیٰ سے آگے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود چلے اور جنت الماویٰ کے مقام پر انسانیت کا وہ عروج پا لیا جو کہ وجۂ تخلیقِ کائنات ہے، جو خاتم الانبیا کی ذات کے لیے ہی ممکن ہے اور جو خدائے بزرگ و برتر کی رحمت کا وصف ہے اور خالق کی مخلوق سے محبت کا تاقیامت ثبوت ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی ذات اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم مبارک میں دو کمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اوراللہ پاک نے احکامات بشمول احکاماتِ صوم و صلوٰۃ اپنے پاک نبی پر وحی فرمائے۔
یہ وہ مقامِ معراج ہے جہاں خدائے بزرگ و برتر اور ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا کوئی دوسر ا موجود نہ تھا۔ یہ وہ وحی تھی جس میں کوئی وحی کا پیامبر بھی موجود نہ تھا۔ بس خالقِ کائنات اور وجہ تخلیقِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصلِ کامل تھا۔
سر لامکاں سے طلب ہوئی سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیؐ
کوئی حد ہے ان کے عروج کی، بلغ العلٰی بِکمالہٖ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جنت اور جہنم کا مشاہدہ بھی کروایا گیا اور میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو واپس بیت المقدس اور پھر واپس مسجد الحرام پہنچایا گیا۔ یہ سفر دروازے کی کنڈی کے ہلنے اور پھر ساکت ہو جانے کے درمیان ہی طے پا گیا اور اگلے دن مسلمانوں کے ایمان اور کفار کی حیرت کا امتحان اور سامان بھی ٹھہرا۔
اس سفر کی صداقت کا اقرار صدیقِ اکبرؓ کی صدیقیت کا موجب بنا جبکہ کئی مسلمانوں کے ایمان ڈگمگائے اور اللہ پاک نے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان کے اقرار سے بری الذمہ قرار دیا۔ کفار نے اس سفر کی تصدیق کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کئی سوالات کیے اور مستند جوابات پائے۔ بیت المقدس سے آنے والے قافلوں کے راستوں کا ذکر ہوا جن کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گزرتے دیکھا تھا اور ثبوت کے طور پر کفار کو کئی نشانیاں بتائیں۔ چودہ سو سال پہلے کا انسانی دماغ گھوڑے کی رفتار سے زیادہ کسی سرعت کا ناظر اور جاننے والا نہیں تھا۔ معراج ان کے تصور سے بالا تر تھی اور محض رات کے کچھ حصے میں یروشلم (بیت المقدس) کا سفر اور واپسی ناقابلِ یقین تھا۔
سائنس بھی اس معجزاتی سفر کا اقرار کرتی ہے۔ آئن سٹائن جدید سائنس اور نظریات کا بانی ہے اور سائنس کے موجودہ قوانین میں نظریہ اضافت یعنی روشنی کی رفتار سے سفر کر نے والے ہر جسم اور ذرّے کے لیے وقت کے تھم جانے کا تصور پیش کرتا ہے۔ وقت بنیادی طور پر انسان کا ہر لمحہ ماپنے کا پیمانہ ہے اور لا محدود (Infinity) کی کوئی اکائی انسان آج تک ایجاد نہیں کر سکا چنانچہ انسان وقت، جسامت اور وزن تینوں کی پیمائش کرتا ہے اور مادی زندگی میں لامحدود کے معنی سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا ادراک سائنس کے ضوابط کی حدود سے فی الحال باہر ہے۔
A Brief History of Time کے مصنف اور جدید علومِ فلکیات کے ماہر سائنسدان Stephan Hawking (اسٹیفن ہاکنگ) سے مسلمانوں کے اس عظیم عقیدہ کے بارے میں سوال کیا گیا اور تشریح مانگی گئی تو اس کا جواب یہ تھا ’’اگر میرے علوم سائنس کی روسے قابلِ عمل ہیں تو یہ سفر اس نظریے کی عملی تصویر ہے۔‘‘
آج کا انسان سفرِ معراج کی صداقت جان چکا ہے۔ یہ سفر میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات اور رحمتِ خدائے پاک کا ایک ادنیٰ سا مظہر ہے۔ یہ سفر پاک خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ایک لازوال تحفہ ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے:
لَقَدْ رَأَیٰ مِنْ اٰیَاتِ رِبّہٖ الْکُبْرَیٰ (النجم۔18)
ترجمہ: بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ربّ کی بے شمار نشانیاں دیکھیں۔
میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس سفر کی روداد عظمتِ کبریائی خدائے تعالیٰ ہے۔ یہ سات آسمانوں کے نگہبان فرشتوں کی وہ گواہی ہے جن کے سردار خود حضرت جبرائیل ؑ ہیں۔ یہ سدرۃ المنتہیٰ کے اس درخت کی گواہی ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے خالق اور مخلوق کے درمیان سر حد تھا اور جس نے کبھی فرشتوں کے سردار کو بھی اس مقام سے آگے بڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے جسمانی وجود اور آنکھوں سے ذاتِ پاک خدائے بزرگ و برتر کو دیکھا۔ بے شک یہ تاب اور صلاحیت خدائے پاک کی طرف سے ہی عطا کردہ تھی۔ بیشک یہ سفر اللہ پاک کی طرف سے ترتیب دیا گیا اور بیشک یہ نہ صرف خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک کی معراج ہے بلکہ یہ انسان کی بطور اشرف المخلوقات تخلیق ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس سفر کی حقیقی مصلحت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور معرج کی عطا کردہ لذت یعنی نماز پنجگانہ کو بروقت خشوع و خضوع کے ساتھ قربِ الٰہی کی باطنی مٹھاس کو بڑھانے کیلئے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین